حضرت خواجہ عثمان ہارونی
رحمتہ اللہ علیہ
آپ رحمتہ اللہ علیہ کا اسم گرامی حضرت خواجہ عثمان ہارونی رحمتہ اللہ علیہ اور کنیت ابونور تھی۔ طریقت اور شریعت کے علوم میں امام العصر تھے اور اپنے وقت کے قطب القطاب مانے جاتے تھے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ حضرت خواجہ شریف زندنی رحمتہ اللہ علیہ کے خلیفہ تھے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ نیشاپور کے نزدیک ایک گاؤں ہارون کے رہنے والے تھے جس کی وجہ سے آپ رحمتہ اللہ علیہ کے نام کے ساتھ ہارونی لکھا جاتا ہے۔
جس دن حضرت خواجہ عثمان ہارونی رحمتہ اللہ علیہ کو خرقہ خلافت ملا تو آپ رحمتہ اللہ علیہ کے پیرومرشد حضرت خواجہ شریف زندنی رحمتہ اللہ علیہ نے کلاہ چار ترکی بھی آپ رحمتہ اللہ علیہ کے سر پر رکھا اور فرمایا کہ اس چار ترکی کلاہ سے مراد چار چیزوں کو ترک کردینا ہے:
۱۔ ترک دنیا۔
۲۔ ترک عقبیٰ۔ یعنی اللہ کی ذات کے سوا کوئی بھی مقصود نہ ہونا
۳۔ ترک کھانا پینا۔ اس سے مراد کم کھانا اور کم سونا ہے۔
۴۔ ترک خواہش نفس۔ یعنی جو کچھ نفس کہے اس کے خلاف کیا جائے۔
حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمتہ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ ایک دن حضرت خواجہ عثمان ہارونی رحمتہ اللہ علیہ کے ہمراہ دوران سفر ہم ایک ایسی جگہ پہنچے جہاں آتش پرستوں کی بستی تھی وہاں ایک آتش کدہ تھا جس کی آگ کسی دن بھی سرد نہیں ہوئی تھی۔ حضرت خواجہ عثمان ہارونی رحمتہ اللہ علیہ نے لوگوں سے کہا کہ تم لوگ خدا کی پرستش کیوں نہیں کرتے جس نے اس آگ کو پیدا کیا ہے۔ انہوں نے جواب دیا کہ ہمارے مذہب میں آگ کو بڑا مانا گیا ہے۔ حضرت خواجہ عثمان ہارونی رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا کیا تم اپنے ہاتھ پاؤں کو آگ میں ڈال سکتے ہو۔ انہوں نے کہا کہ آگ کا کام جلانا ہے یہ کس کی مجال ہے کہ اس کے قریب بھی جائے۔ یہ بات سن کر حضرت خواجہ عثمان ہارونی رحمتہ اللہ علیہ نے ایک بچہ جو کہ ایک آتش پرست کی گود میں تھا لیا اور بچے سمیت آگ میں کود گئے اور چار گھنٹے کے بعد باہر آئے۔ نہ تو آپ رحمتہ اللہ علیہ کا خرقہ آگ سے جلا اور نہ ہی بچےپر آگ کا کوئی اثر ہوا۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کی یہ کرامت دیکھ کر تمام آتش پرست مسلمان ہوگئے اور آپ رحمتہ اللہ علیہ کے حلقہ ادارت میں شامل ہوگئے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے ان کے سردار کا نام عبداللہ اور اس چھوٹے بچے کا نام ابراہیم رکھا۔
حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص حضرت خواجہ عثمان ہارونی رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو عرض کی کہ اتنا عرصہ ہوا میرا لڑکا گم ہوگیا ہے اور مجھے اس کی کوئی خبر نہیں کہ وہ کہاں ہے۔ مہربانی فرماکر توجہ فرمائیں۔ حضرت خواجہ عثمان ہارونی رحمتہ اللہ علیہ نے یہ بات سنی اور مراقبے میں چلے گئے تھوڑی دیر بعد سر اٹھایا اور فرمایا کہ تمہارا لڑکا گھر پہنچ گیا ہے۔ وہ شخص جب گھر گیا تو لڑکے کو گھر موجود پایا وہ شخص خوشی میں اسی وقت لڑکے کو ساتھ لے کر حضرت خواجہ عثمان ہارونی رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوگیا اور شکریہ ادا کیا۔ حاضرین نے لڑکے سے دریافت کیا کہ تم گھر کیسے پہنچ گئے تو لڑکے نے کہا کہ میں جزائرالہند کے ایک جزیرے میں موجود تھا کہ ایک بزرگ جن کی شکل حضرت خواجہ عثمان ہارونی رحمتہ اللہ علیہ سے ملتی جلتی تھی میرے پاس تشریف لائے اور کہا اٹھو اور میرے پاؤں پر اپنا پاؤں رکھ کر آنکھیں بند کرلو چنانچہ میں نے ایسا ہی کیا جب میری آنکھیں کھلیں تو میں اپنے گھر موجود تھا۔
حضرت خواجہ عثمان ہارونی رحمتہ اللہ علیہ چھ شوال ۶۱۷ ہجری کو اس دارفانی سے رخصت ہوئے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کی آخری آرام گاہ مکہ معظمہ میں واقع ہے۔